غزل
ِقربتوں میں بھی جُدائی کے
زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے
چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا
مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے
مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار
چُکے لُٹ بھی چُکے
اور مُحبت وہی انداز پُرانے مانگے
زندگی ہم تیرے داغوں سے
رہےشرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئنہ خانے
مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فرازؔ
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے