غزل
پیار میں محبوب سے ملنا خواہش ہوتی ہے
جذبوں کی آگ میں جلنا فرمائش ہوتی ہے
ملتے ہیں لوگ یہاں مطلب کی چھاؤں میں
وقت کی دُھوپ میں جلنا آزمائش ہوتی ہے
جس پیارکی بنیادمیں ہو مکرو فریب کا زہر
اُس کی وفا میں نہ کوئی گُنجائش
ہوتی ہے
جیتے ہیں جو لوگ دوسروں کے واسطے
زندگی اُن کی بڑی قابلِ ستائش ہوتی ہے
ملنا ہے تو آ کے مل جا زندہ ہے تیرا عادل
مرنے کے بعد نہ کوئی گُنجائش ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment