غزل
دل سے دل کو جُدا کر بیٹھے ہیں
زندگی اپنی ہم سزا کر بیٹھے ہیں
تجھ سے بچھڑ کر اِس دُنیا میں
خُود سے بھی کنارہ کر بیٹھے ہیں
خُوشی کی شمع
بجھا کر دل میں
دُکھوں کا اندھیرا کر بیٹھے ہیں
سچ کی راہ کو چھوڑ کر ہم لوگ
جُھوٹی دُنیا کا نظارہ کر بیٹھے ہیں
دُورہو کر
تیری نظروں سے
اپنی زندگی کا
خسارہ کر بیٹھے ہیں
عشق کی راہ پہ چل کر عادل
اپنے مرنے کا اشارہ کر بیٹھے ہیں
عادل
No comments:
Post a Comment