غزل
وعدہِ حور پہ بہلائے
ہوئے لوگ ہیں ہم
خاک بولیں گے دَفنائے
ہوئے لوگ ہیں ہم
یوں ہر ایک ظلم
پہ دَم سادھے کھڑے ہیں
جیسے دیوار میں
چُنوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
اُس کی ہر بات
پہ لبیک بھلا کیوں نہ کہیں
زر کی جھنکار پہ
بُلوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
جس کا جی چاہے
وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے
منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
ہنسی آئےبھی تو ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے
زندگی یوں تیرے
زخمائے ہوئے لوگ ہیں ہم
آسمان اپنا ، نہ
زمیں اپنی، نہ سانس اپنی تو پھر
جانے کس بات پہ
اِترائے ہوئے لوگ ہیں ہم
جس طرح چاہے
بنا لے ہمیں وقت قتیلؔ
درد کی آنچ پہ
پگھلائے ہوئے لوگ ہیں ہم
قتیل شفائی