Monday, 15 August 2022

Zakhmai howay log ( Wounded Personnel)

غزل

وعدہِ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم

خاک بولیں گے دَفنائے ہوئے لوگ ہیں ہم


یوں ہر ایک ظلم پہ دَم سادھے کھڑے ہیں

جیسے دیوار میں چُنوائے  ہوئے لوگ ہیں ہم


اُس کی ہر بات پہ لبیک بھلا کیوں نہ کہیں

زر کی جھنکار پہ بُلوائے ہوئے لوگ ہیں ہم


جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے

جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم


ہنسی آئےبھی  تو ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے

زندگی یوں تیرے زخمائے ہوئے لوگ ہیں ہم


آسمان اپنا ، نہ زمیں اپنی، نہ سانس اپنی تو پھر

جانے کس بات پہ اِترائے ہوئے لوگ ہیں ہم


جس طرح   چاہے بنا لے ہمیں وقت  قتیلؔ

درد کی آنچ پہ پگھلائے ہوئے لوگ ہیں ہم       


قتیل شفائی






 

Saza pay chore deya ( Leave On Punishment )


غزل

سزا پہ چھوڑ دیا ۔۔ کچھ جزا پہ چھوڑ دیا

ہر ایک کام کو میں نےخُدا  پہ چھوڑ دیا


وہ مجھ کو یاد رکھے گا یا پھر بُھلا دے گا

اُسی کا کام تھا ، اُس کی رَضا پہ چھوڑ دیا


اب اُس کی مرضی جلائےیا پھر بجھائےرکھے

چراغ ہم نے جلا کے ہوا  پہ چھوڑ دیا


اُس سے بات بھی کرتے تو کس طرح کرتے

یہ مسئلہ تھا اَنا کا۔۔۔ اَنا  پہ چھوڑ دیا


اِسی لیئے تو وہ کہتے ہیں بے وفا ہم کو

کہ ہم نے سارا زمانہ وفا پہ چھوڑ دیا

 نا معلوم




 

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے