غزل
سزا پہ چھوڑ دیا
۔۔ کچھ جزا پہ چھوڑ دیا
ہر ایک کام کو
میں نےخُدا پہ چھوڑ دیا
وہ مجھ کو یاد
رکھے گا یا پھر بُھلا دے گا
اُسی کا کام تھا
، اُس کی رَضا پہ چھوڑ دیا
اب اُس کی مرضی جلائےیا
پھر بجھائےرکھے
چراغ ہم نے جلا
کے ہوا پہ چھوڑ دیا
اُس سے بات بھی
کرتے تو کس طرح کرتے
یہ مسئلہ تھا اَنا
کا۔۔۔ اَنا پہ چھوڑ دیا
اِسی لیئے تو وہ
کہتے ہیں بے وفا ہم کو
کہ ہم نے سارا
زمانہ وفا پہ چھوڑ دیا
نا معلوم
No comments:
Post a Comment