غزل
اب تک یہی سُنا
تھا کہ بازار بِک گئے
اُس کی گلی میں
گئے تو خریدار بِک گئے
جس نے ہمیں
خریدا منافع کما لیا
اپنا ہے یہ کمال
کہ ہر بار بِک گئے
انجام یہ نہیں
تھا کہانی کا اصل میں
کیا کیجئے کہ
بیچ میں کردار بِک گئے
اتنا تو فرق ہے
چلو اپنوں میں غیر میں
اپنے تھے
شرمسار، مگر یار بِک گئے
مت پُوچھ اِن کا
بکتے محبت کے مال جو
روئے تمام عمر
کے بے کار بِک گئے
کیجئے شکایتیں
بھلا اب کس کے رُو برو
قاضی بکایہاں ،
اور یہاں دربار بِک گئے
تلوار کی جگہ
وہاں بنتی ہیں چُوڑیاں
جس جس قبیلے کے
یہاں سردار بِک گئے
جنگل کی دھوپ
میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا
قیمت لگی تو
دیکھئے اشجار بِک گئے
ابرکؔ وفا کشی
کا کوئی بیج تجھ میں ہے
یونہی نہیں ہیں
سارے طلب گار بِک گئے
اتباق ابرکؔ