غزل
عشق میں جیت کے
آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی
زمانے کے لئے کافی ہوں
ہر حقیقت کو
میری خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند
اُڑانے کے لئے کافی ہوں
یہ الگ بات کے
اب سوکھ چکا ہوں پھر بھی
دُھوپ کی پیاس
بجھانے کے لئے کافی ہوں
بس کسی طرح میری
نیند کا یہ جال کٹے
جاگ جاؤں تو
جگانے کے لئے کافی ہوں
زندگی ڈھونڈتی
پھرتی ہے سہارا کس کا
میں تیرا بوجھ
اُٹھانے کے لئے کافی ہوں
میرے دامن میں
ہیں سَو چاک مگر اے دُنیا
میں تیرے عیب
چھپانے کے لئے کافی ہوں
ایک اخبار ہوں
اوقات ہی کیا ہے میری
شہر میں آگ
لگانے کے لئے کافی ہوں
میرے بچوں مجھے
دِل کھول کے تم خرچ کرو
میں اکیلا ہی
کمانے کے لئے کافی ہوں
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment