Thursday, 31 August 2023

Bazar Bik Gai




 

غزل

اب تک یہی سُنا تھا کہ بازار بِک گئے

اُس کی گلی میں گئے تو خریدار بِک گئے


جس نے ہمیں خریدا منافع کما لیا

اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بِک گئے


انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں

کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بِک گئے


اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں

اپنے تھے شرمسار، مگر یار بِک گئے


مت پُوچھ اِن کا بکتے محبت کے مال جو

روئے تمام عمر کے بے کار  بِک گئے


کیجئے شکایتیں بھلا اب کس کے رُو برو

قاضی بکایہاں ، اور یہاں دربار بِک گئے


تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چُوڑیاں

جس جس قبیلے کے یہاں سردار بِک گئے


جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا

قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بِک گئے


ابرکؔ وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے

یونہی نہیں ہیں سارے طلب گار  بِک گئے

اتباق ابرکؔ



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے