Wednesday, 30 October 2019

Aadmi na Mila ( The man was not found )

غزل

محبتوں میں دِ کھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

 گھروں پہ نام تھے نام  کے ساتھ عُہدے تھے
بہت تلاش کیا  کوئی آدمی نہ ملا

تمام رِشتوں کو میں گھر پہ چھوڑ آیا تھا
پھر اِس کے بعد مجھے  کوئی اجنبی نہ ملا

خُدا کی اتنی بڑی کائنات میں، میں نے
بس اِک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بہت عجیب ہے یہ قُر بتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا

بشیر بدر


BayWafa Nikalti hai ( Unfaithfulness in love )


غزل

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات بڑی دور  جا  نکلتی ہے

ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی
تمام خلق میری ہم نوا نکلتی ہے

وصالِ ہجر کی حسرت میں جوئے کم  مایہ
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے

میں کیا کروں میرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
تیرے لیے میرے دل سے دُعا  نکلتی ہے

وہ زندگی ہو کہ دُنیا فرازؔ کیا کیجیے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے



Friday, 25 October 2019

Dosti ka silla ( Friendship Reward )

غزل

اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے
اپنا سمجھ کے زہر پلا دیجئے مجھے

اُٹھے نہ تا کہ آپ کی جانب نظر کوئی
جتنی بھی تُہمتیں ہیں لگا دیجئے مجھے

کیوں آپ کی خوشی کو میرا غم کرے اُداس
اک تلخ حادثہ ہوں بُھلا دیجئے مجھے

صدق و صفا   نے مجھ کو کیا ہے بہت خراب
مکرو  ریا ضرور سکھا دیجئے مجھے

میں آپ کے قریب ہی ہوتا ہوں ہر گھڑی
موقع کبھی پڑے تو صدا دیجئے مجھے

ہر چیز دستیاب ہے بازار میں عدمؔ
جھوٹی خُوشی خرید کے لا دیجئے مجھے



Sunday, 20 October 2019

Thak Jata Hoon ( I am Tired )


غزل

اشک آنکھوں میں چُھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
بوجھ  پانی کا اُٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

پاؤں رکھتے ہیں جو مُجھ پر اُنہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

برف ایسی کہ  پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بُجھا تے ہوئے تھک جاتا ہوں

اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

غمگساری بھی عجب کارِ محبت ہے کہ میں!
رونے والوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر  مُحسنؔ
میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں 



Wafa karta ( Loyal with me )


غزل

کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
میں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا

ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خُود  سے آشنا  کرتا

غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
میں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا

اگر زبان نہ کٹتی تو شہر  میں مُحسنؔ
میں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا






Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے