غزل
کیوں نہ ترکِ
تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا
باسی تھا کیا وفا کرتا
وہ میرے ضبط کا
اندازہ کرنے آیا تھا
میں ہنس کے زخم
نہ کھاتا تو اور کیا کرتا
ہزار آئینہ
خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو
مجھے خُود سے آشنا کرتا
غمِ جہاں کی
محبت لُبھا رہی تھی مجھے
میں کس طرح تیری
چاہت پہ آسرا کرتا
اگر زبان نہ
کٹتی تو شہر میں مُحسنؔ
میں پتھروں کو
بھی اِک روز ہمنوا کرتا
No comments:
Post a Comment