غزل
اشک آنکھوں میں
چُھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اُٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پاؤں رکھتے ہیں
جو مُجھ پر اُنہیں احساس نہیں
میں نشانات
مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
برف ایسی
کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ
بُجھا تے ہوئے تھک جاتا ہوں
اچھی لگتی نہیں
اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے
ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
غمگساری بھی عجب
کارِ محبت ہے کہ میں!
رونے والوں کو
ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں
اتنی قبریں نہ
بناؤ میرے اندر مُحسنؔ
میں چراغوں کو
جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
No comments:
Post a Comment