غزل
نہ دل سے آہ نہ
لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات بڑی
دور جا
نکلتی ہے
ستم تو یہ ہے کہ
عہدِ ستم کے جاتے ہی
تمام خلق میری
ہم نوا نکلتی ہے
وصالِ ہجر کی
حسرت میں جوئے کم مایہ
کبھی کبھی کسی
صحرا میں جا نکلتی ہے
میں کیا کروں
میرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
تیرے لیے میرے
دل سے دُعا نکلتی ہے
وہ زندگی ہو کہ
دُنیا فرازؔ کیا کیجیے
کہ جس سے عشق
کرو بے وفا نکلتی ہے
No comments:
Post a Comment