Wednesday, 27 November 2019

Rahat Andori Urdu Poetry ( Best Poetry)

غزل

اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں

اُس آدمی کو بس ایک دُھن سوار رہتی ہے

بہت حسین ہے دُنیا  اِسے خراب کروں

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی

کبھی اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں



غزل

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کےٹکڑے سمیٹ

اور اپنے  ہار جانے کا سبب معلوم کر

جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل  کا نام دے

رات بھر کی  کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر

شام تک لوٹ آؤں گا ہاتھوں کا خالی پن لیے

آج پھر نِکلا ہوں مَیں گھر سے ہتھیلی چوم کر

مت سکھا لہجے کو اپنی برچھیوں کے پینترے

زندہ رہنا ہے تو لہجے کو ذرا معصوم کر

راحت اندوری



رہے خیال کہ مجذوبِ عشق ہیں ہم لوگ

اگر زمیں سے پُھوکیں تو آسماں اُڑ جائیں

بکھر بکھر سی گئی ہے  کتاب  سانسوں کی

یہ کاغذات خدا جانے کب کہاں اُڑ جائیں





جھوٹوں نےجھوٹوں سےکہا ہے سچ بولو

سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو

گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے

دروازے پر لکھا ہو ا ہے سچ بولو

گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے

گلدستے کے اندر کیا ہے سچ  بولو

گنگا میا ڈوبنے والے اپنے تھے

ناؤ میں کس نے چھید کیا ہےسچ بولو




آگ کے پاس  کبھی موم کو لا کر دیکھوں

ہو اجازت تو تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں

دِل  کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے

سوچتا ہوں تیری تصویر لگا کر دیکھوں



پھولوں کی دُکانیں کھولو! خوشبو کا بیوپار کرو

عشق خطا ہےتو یہ  خطا ایک بار نہیں  سو  بار کرو

@@@@@@@@@@@@

کس نے دستک دی یہ دِل پر، کون ہے

آپ تو اندر ہیں  پھر یہ  باہر کون ہے



Tuesday, 26 November 2019

Jore Dounga Ussay ( I Shall Bound Him in love )

غزل

کبھی اکیلے میں مل کر جھنجھو ڑ دونگااُسے
جہاں جہاں  سے وہ  ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے

اور مجھے وہ چھوڑ گیا،  یہ کمال ہے اُسکا
اِرادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے

 پسینے بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
 کبھی جو ہاتھ لگا !  تو نچوڑ دونگا اُسے

مزا چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دونگا اُسے

راحت اندوری


Saturday, 16 November 2019

Naam Likha kartay thay ( We Wrote your name )


غزل

جب میں تیری دُھن میں جیا کرتے تھے
ہم بھی چُپ چاپ پِھرا کرتے تھے

آنکھوں میں پیاس ہوا کرتی تھی
دِل میں طوفان اُٹھا کرتے تھے

لوگ آتے تھے غزل سننے کو
ہم تیری بات کیا کرتے تھے

کسی ویرانے میں تجھ سے مل کر
دِل میں کیا پُھول کِھلا کرتے تھے

گھر کی دیوار سجانے کے لئے
ہم تیرا نام لکھا کرتے تھے

جب تیرے درد سے دِل دُکھتا تھا
ہم تیرے حق میں دُعا کرتے تھے

کل تجھے  دیکھ کر  یاد آیا
ہم سُخنور بھی ہوا  کرتے تھے

محسن نقویؔ


Thursday, 7 November 2019

Jaan Lutatay Jatay ( Life would be deprived )


غزل

ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان  ہوتی تو میری جان  لُٹاتے  جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گُذری ہےتیرے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم  لگاتے  جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا پتھر تھا
تم تو دریا تھے میری پیاس بُجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کو سلیقہ بھی نہیں  ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی  مسافر کئی گذرے ہوں گے
کم  سے  کم  راہ کے  پتھر  تو ہٹاتے  جاتے

راحت اندوریؔ


Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے