غزل
اپنی
روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں
چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں
اُس
آدمی کو بس ایک دُھن سوار رہتی ہے
بہت
حسین ہے دُنیا اِسے خراب کروں
یہ
زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی
کبھی
اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
غزل
زندگی
کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے
کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
ٹوٹ
کر بکھری ہوئی تلوار کےٹکڑے سمیٹ
اور
اپنے ہار جانے کا سبب معلوم کر
جاگتی
آنکھوں کے خوابوں کو غزل کا نام دے
رات
بھر کی کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر
شام
تک لوٹ آؤں گا ہاتھوں کا خالی پن لیے
آج
پھر نِکلا ہوں مَیں گھر سے ہتھیلی چوم کر
مت
سکھا لہجے کو اپنی برچھیوں کے پینترے
زندہ
رہنا ہے تو لہجے کو ذرا معصوم کر
راحت
اندوری
رہے
خیال کہ مجذوبِ عشق ہیں ہم لوگ
اگر
زمیں سے پُھوکیں تو آسماں اُڑ جائیں
بکھر
بکھر سی گئی ہے کتاب سانسوں کی
یہ
کاغذات خدا جانے کب کہاں اُڑ جائیں
جھوٹوں
نےجھوٹوں سےکہا ہے سچ بولو
سرکاری
اعلان ہوا ہے سچ بولو
گھر
کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے
پر لکھا ہو ا ہے سچ بولو
گلدستے
پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے
کے اندر کیا ہے سچ بولو
گنگا
میا ڈوبنے والے اپنے تھے
ناؤ
میں کس نے چھید کیا ہےسچ بولو
آگ کے پاس کبھی موم کو لا کر دیکھوں
ہو اجازت تو
تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں
دِل کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے
سوچتا ہوں تیری
تصویر لگا کر دیکھوں
پھولوں
کی دُکانیں کھولو! خوشبو کا بیوپار کرو
عشق
خطا ہےتو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار
کرو
@@@@@@@@@@@@
کس
نے دستک دی یہ دِل پر، کون ہے
آپ
تو اندر ہیں پھر یہ باہر کون ہے
No comments:
Post a Comment