غزل
ہاتھ خالی ہیں
تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان لُٹاتے
جاتے
اب تو ہر ہاتھ
کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گُذری ہےتیرے
شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا
یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے تو
کوئی زخم لگاتے جاتے
میں تو جلتے
ہوئے صحراؤں کا پتھر تھا
تم تو دریا تھے
میری پیاس بُجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کو
سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں
مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گذرے ہوں گے
کم سے
کم راہ کے پتھر
تو ہٹاتے جاتے
راحت اندوریؔ
No comments:
Post a Comment