Thursday, 7 November 2019

Jaan Lutatay Jatay ( Life would be deprived )


غزل

ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان  ہوتی تو میری جان  لُٹاتے  جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گُذری ہےتیرے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم  لگاتے  جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا پتھر تھا
تم تو دریا تھے میری پیاس بُجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کو سلیقہ بھی نہیں  ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی  مسافر کئی گذرے ہوں گے
کم  سے  کم  راہ کے  پتھر  تو ہٹاتے  جاتے

راحت اندوریؔ


No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے