بچا کے رکھی
تھی کچھ روشنی زمانے سے
ہوا چراغ
اُڑا لے گئی سرہانے سے
نصیحتیں نہ کرو
عشق کرنے والوں کو
یہ آگ اور بھڑک
جائے گی بجھانے سے
فیصلہ جو کچھ بھی ہو منظور ہونا چاہیے
جنگ ہو یا عشق
ہو بھر پور ہونا چاہیے
کٹ چکی ہے عمر
ساری جن کی پتھر توڑتے
اب تو اِن
ہاتھوں میں کوہِ نور ہونا چاہیے
جہالتوں کے
اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں آج ساری
کتابیں جلا کے لوٹ آیا
وہ اب بھی ریل
میں بیٹھی سسک رہی ہو گی
میں اپنا ہاتھ
ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا
خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جس زمیں پہ
ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا
وہ چاہتا تھا کہ
کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج
کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
عشق میں جیت کے آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی
زمانے کے لئے کافی ہوں
صرف ایک بار
میری نیند کا یہ جال کٹے
جاگ جاؤں تو
جاگانے کے لئے کافی ہوں
ہر حقیقت کو
میری خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند
اُڑانے کے کئے کافی ہوں
ایک
اخبار ہوں اوقات ہی کیا میری مگر
شہر میں آگ
لگانے کے لئے کافی ہوں
میرے بچوں مجھے
تم دل کھول کے خرچ کرو
میں اکیلا ہی
کمانے کے لئے کافی ہوں
No comments:
Post a Comment