غزل
زخم دل کے اگر
سیئے ہوتے
اہلِ دل کس طرح
جیئے ہوتے
وہ ملے بھی تو
ایک جھجھک سی رہی
کاش تھوڑی سی ہم
پیئے ہوتے
آرزؤ
مطمئیں تو ہو جاتی
اور بھی کچھ ستم
کیئے ہوتے
لذتِ غم تو بخش
دی اُس نے
حوصلے بھی عدمؔ
دیئے ہوتے
غزل
مسکرا کے خطاب
کرتے ہو
عادتیں کیوں
خراب کرتے ہو
کیا ضرورت ہے
بحث کرنے کی
کیوں کلیجہ کباب
کرتے ہو
ہو چکا جو حساب
ہونا تھا
اور اب کیا حساب
کرتے ہو
یہ نئی احتیاط
دیکھی ہے
آئینے سے حجاب
کرتے ہو
ایک دن اے عدمؔ
نہ پی تو کیا
روز شغل
شراب کرتے ہو
عبدالحمید عدمؔ
No comments:
Post a Comment