غزل
اے محبت تیرے
انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج
تیرے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام
اُمیدوں میں گذر جاتی ہے
آج کُچھ بات ہے
جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا
ماتم، کبھی دُنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں
ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم
ہوا سلسلہ ء نوحہ گری
اِس قدر گردشِ ایّام
پہ رونا آیا
جب ہوا ذِکر
زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو
اپنے دلِ
ناکام پہ رونا آیا
غزل
کسی کو جب نگا
ہوں کے مقابل دیکھ لیتا ہوں
تو پہلے سر جھکا
کے حالتِ دل دیکھ لیتا ہوں
مال جستجو ئے
ذوق کامل دیکھ لیتا ہوں
اُٹھائے ہی قدم
آثار منزل دیکھ لیتا ہوں
میں تجھ سے اور
لطفِ خاص کا طالب معاذاللہ
ستم گر اِس
بہانے سے ترا دل دیکھ لیتا ہوں
جو موجیں خاص کر
چشم و چراغِ دام طوفاں ہیں
میں اِن موجوں
کو ہم آغوش ساحل دیکھ لیتا ہوں
شکیلؔ احساس ہے
مجھ کو ہر اِک موزوں طبیعت کا
غزل پڑھنے سے
پہلے رنگِ محفل دیکھ لیتا ہوں
غزل
تیری محفل سے
اُٹھ کرعشق کے ماروں پہ کیا گذری
مُخالف اِک جہان
تھا جانے بیچاروں پہ کیا گذری
سحر کو رُخصتِ
بیمار فرقت دیکھنے والو
کسی نے یہ بھی
دیکھا رات بھر تاروں پہ کیا گذری
سُنا ہے زندگی
ویرانیوں نے لُوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی
کے ناز برداروں پہ کیا گذری
ہنسی آئی تو ہے
بے کیف سی لیکن خُدا جانے
مجھے مسرور پا
کر میرے غم خواروں پہ کیا گذری
اسیرِ غم تو جان
دے کر رہائی پا گیا لیکن
کسی کو کیا خبر
زِندان کی دیواروں پہ کیا گذری
شکیلؔ بدایونی
غزل
رازِ وفائے ناز
پھر دِل کو بتا گیا کوئی
جیسے مُراد
واقعی عشق میں پا گیا کوئی
سینے میں روح
دردِ دل بن کے سما گیا کوئی
ویسے ہی درد کم
نہ تھا اور بڑھا گیا کوئی
شانِ نیاز دیکھنا، شوخیِ ناز دیکھنا
نیتِ سجدہ جب
ہوئی سامنے آ گیا کوئی
لوگ اِسے جنوں
کہیں یا نہ کہیں شکیلؔ
میں تو اُس کا
ہو چکا ، مجھ میں سما گیا کوئی
غزل
میری زند گی پہ
نہ مسکرا، مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے
ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
مرا رکُفر حاصلِ
زُہد ہے، مرا زُہد حاصلِ کُفر ہے
میری بندگی ہے
وہ بندگی جو رہینِ دیر و حرم نہیں
وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی ، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے
مقام پر کبھی تم نہیں ، ہم نہیں
نہ شانِ جبرِ
شباب ہے ، نہ وہ رنگ قہر ِ عذاب ہے
دلِ بے قرار پہ
اِن دنوں ، ہے ستم یہی کہ ستم نہیں
نہ فنا مری ،
نہ بقا مری، مجھے اے شکیل ؔ نہ ڈھونڈیئے
میں کسی کا
حُسنِ خیال ہوں، مرا کچھ وجودِ عدم نہیں
شکیل ؔ بدایونی
غزل
دُنیا کی روایات
سے بیگانہ نہیں ہوں میں
چھڑو نہ مجھے
میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں میں
اِس کثرتِ غم پر
بھی مجھے حسرت ِ غم ہے
جو بھر کے چھلک
جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں میں
رُدادِ غم عشق ہے تازہ
میرے دم سے
عنوان ہر افسانہ
ہوں، افسانہ نہیں ہوں میں
اِلزم جنوں دیں
نہ مجھے اہلِ محبت
میں خود سمجھتا
ہوں کہ دیوانہ نہیں ہوں میں
ہے برقِ سر طور
سے دل شعلہ بداماں
شمعِ سر محفل
ہوںمیں دیوانہ نہیں ہوں میں
ہے گردشِ ساغر
میری تقدیر کا چکر
محتاج ِ طوافِ
در میخانہ نہیں ہوں میں
کانٹوں سے گزر جاتا
ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیا
ست سے نیگانہ نہیں ہوں میں
لذتِ کشِ نظارہ
شکیلؔ اپنی نظر ہے
محرومِ جمالِ
رُخِ جانانہ نہیں ہوں میں
No comments:
Post a Comment