غزل
جو لوگ جان بوجھ کے نادان بن گئے
میرا خیال ہے کہ
وہ انسان بن گئے
محشر میں ہم گئے
تھے مگرکچھ نہ پو چھئے
وہ اتفاق سے
وہاں انجان بن گئے
رہبر سے جان بچی
تھی کہ راہزن نے آلیا
کیا مستقل نجات
کے سامان بن گئے
جانا تھا ڈوبنے
ہمیں منجدھار میں، مگر
ساحل کے آس پاس
ہی طوفان بن گئے
انسانیت کی بات
تو اتنی ہے شیخ جی!
بد قسمتی سے آپ
بھی انسان بن گئے
کانٹے تھے چند
دامنِ فطرت میں اے عدمؔ
کچھ پھول اور
کچھ مرے ارمان بن گئے
غزل
کیا دوستوں کا رنج کہ بہتر نہیں ملے
دُشمن بھی ہم کو
قد کے برابر نہیں ملے
اِس بحرِ آرزو
میں جو کرتے ہمیں تلاش
اب تک تو ہم کو
ایسے شناور نہیں ملے
بس ایسا کچھ ہوا
کہ سمجھ میں نہ آسکا
دل مل گئے ،
ہمارے مُقدر نہیں ملے
ملتے ہیں لوگ
لمبی جدائی کے بعد بھی
تم ایسے گُم
ہوئے کہ پلٹ کر نہیں ملے
لوگوں نے گفتگو
میں کریدا بہت ہمیں
ہم خود سے
ہمکلام تھے اکثر نہیں ملے
غزل
زندگی ناتمام ہے
شاید
موت وقفے
کا نام ہے شاید
ایسا محسوس
ہورہا ہے کوئی
خواب میں ہم
کلام ہے شاید
دل کی دھڑکن
وجود ہے اُس کا
سانس اُس کا
پیام ہے شا ید
ایک سفاک آنکھ
کا مطلب
ایک بھرپور جام
ہے شاید
پی گیا ہے جو
میرا حصّہ بھی
شیخ عالی مقام
ہے شاید
رہنما ساتھ دے
نہیں سکتے
راہ رو تیز گام
ہے شاید
کتنی ضو ہے عدمؔ
کے چہرے پر
غیر رسمی امام
ہے شاید
No comments:
Post a Comment