Thursday, 26 December 2019

A. Hameed Adam Poetry


غزل

 جو لوگ جان بوجھ کے نادان بن گئے
میرا خیال ہے کہ وہ انسان بن گئے

محشر میں ہم گئے تھے مگرکچھ نہ پو چھئے
وہ اتفاق سے وہاں انجان بن گئے

رہبر سے جان بچی تھی کہ راہزن نے آلیا
کیا مستقل نجات کے سامان بن گئے

جانا تھا ڈوبنے ہمیں منجدھار میں، مگر
ساحل کے آس پاس ہی طوفان بن گئے

انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی!
بد قسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے

کانٹے تھے چند دامنِ فطرت میں اے عدمؔ
کچھ پھول اور کچھ  مرے ارمان بن گئے


غزل

 کیا دوستوں کا رنج کہ بہتر نہیں ملے
دُشمن بھی ہم کو قد کے برابر نہیں ملے

اِس بحرِ آرزو میں جو کرتے ہمیں تلاش
اب تک تو ہم کو ایسے شناور نہیں ملے

بس ایسا کچھ ہوا کہ سمجھ میں نہ آسکا
دل مل گئے ، ہمارے مُقدر نہیں ملے

ملتے ہیں لوگ لمبی جدائی کے بعد بھی
تم ایسے گُم ہوئے کہ پلٹ کر  نہیں ملے

لوگوں نے گفتگو میں کریدا بہت ہمیں
ہم خود سے ہمکلام تھے اکثر  نہیں ملے 



غزل

زندگی ناتمام ہے شاید
موت وقفے کا  نام ہے شاید

ایسا محسوس ہورہا ہے  کوئی
خواب میں ہم کلام ہے شاید

دل کی دھڑکن وجود ہے اُس کا
سانس اُس کا پیام ہے شا ید

ایک سفاک آنکھ کا مطلب
ایک بھرپور جام ہے شاید

پی گیا ہے جو میرا حصّہ بھی
شیخ عالی مقام ہے شاید

رہنما ساتھ دے نہیں سکتے
راہ رو تیز گام ہے شاید

کتنی ضو ہے عدمؔ کے چہرے پر
غیر رسمی امام ہے شاید





No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے