غزل
کہاں آنسوؤں کی
یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے
نئی بات ہوگی
میں ہر حال میں
مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت
اگر ساتھ ہو گی
چراغوں کو
آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دُور تک رات
ہی رات ہو گی
پریشاں ہو تم
بھی، پریشان ہوں میں بھی
چلو مے کدے
میں وہیں بات ہو گی
چراغوں کی لَو سے ستاروں کی ضو تک
تمہیں میں ملوں
گا جہاں رات ہو گی
مسافر ہیں ہم
بھی، مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر
ملاقات ہو گی
بشیر ؔ بدر
غزل
ہونٹوں پہ محبت
کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ
سمندر کے خزانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک
اُٹھتی ہیں سونے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چُھپانے نہیں آتے
دِل اُجڑی ہوئی
ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات
جگانے نہیں آتے
یارو نئے موسم
نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد
پُرانے نہیں آتے
اُڑنے دو پرندوں
کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن
کے زمانے نہیں آتے
اَس شہر کے بادل
تری زُلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے
ہیں، بجھانے نہیں آتے
احباب بھی غیروں
کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دِل
کو دُکھانے نہیں آتے
بشیرؔ بدر
غزل
میری آنکھوں میں
ترے پیار کا آنسو آئے
کوئی خوشبو میں لگاؤں
تری خوشبو آئے
وقت ِ رُخصت
کہیں تارے کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے
پھول سے بازو آئے
میں نے دِن رات
خدا سے یہ دُعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو
دَر پر میرے جب تو آئے
اُس کی باتیں کہ
گُل ولالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا
اُس شوخ کو جادو آئے
اُس نے چُھو کر
مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مُدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسو آئے
بشیرؔ بدر
غزل
کسی کی یاد میں
پلکیں ذرا بھگو لیتے
اُداس رات کی
تنہا ئیوں میں رُو لیتے
دُکھوں کا بوجھ
اکیلے نہیں سنبھلتا ہے
کہیں وہ ملتا تو اُس سے لپٹ کے رُو لیتے
اگر سفر میں
ہمارا بھی ہم سفر ہوتا
بڑی خوشی سے
انہی پتھروں پہ ہو لیتے
تمہاری راہ میں
شا خوں پہ پھول سوکھ گئے
کبھی ہوا کی طرح اُس طرف بھی ہو لیتے
یہ کیا کہ روز
وہی چاندنی کا بستر ہو
کبھی تو دُھوپ
کی چادر بچھا کے سو لیتے
بشیرؔ بدر
No comments:
Post a Comment