غزل
ہاتھوں میں اُن
کے پُھول بھی پتھرلگے مجھے
اپنوں کے نام سے
ہی بڑا ڈر لگے مجھے
کانٹے بھی جِن
کی راہ کے پلکوں پہ رکھ لئے
اُن کی یہی دُعا
ہے کہ ٹھوکر لگے مجھے
گرداب سے نکل کہ
اگر آگیا تو کیا
یہ شہرِ بے کراں
بھی سمندر لگے مجھے
اشکوں کو میرے
جس نےسہارا نہیں دیا
وہ بے وفا وفاؤں
کا پیکر لگے مجھے
ہر گام پہ کھڑی
ہیں نئی مُشکلیں مگر
پہلے سے اب یہ
زندگی بہتر لگے مجھے
لمحہ ٹہر گیا
تھا جو رستے میں روٹھ کر
کاوشؔ پُکارتا
ہے وہ
اکثر لگے مجھے
حسین کاوشؔ
No comments:
Post a Comment