Saturday 21 December 2019

Saghar Siddique Poetry

غزل

ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

میں نے پلکوں سے درِیار پہ دستک دی  تھی
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا  یاد نہیں

ہم نے جِن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی  چراغوں کی  ضیاء یاد نہیں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہےسز ایاد نہیں

آؤ  اِک سجدہ کریں عالمِ مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خُدا  یاد نہیں



غزل

یہ جو دیوانےسے دو چار نظر آتے ہیں
اِن کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو  بیدار  نظر آتے ہیں

دُور تک کوئی  سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کے  آثار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی  نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغرؔ
               سب تمہا رے ہی طرفدار نظر آتے ہیں 




غزل

اِس درجہ عشق موجبِ رُسوائی بن گیا
میں آپ اپنے  گھر کا تماشائی بن گیا

دیر و حرم کی راہ سے دِل بچ گیا مگر
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

بزمِ وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
یاد آگیا تو عہدِ شنا سائی بن گیا

بے ساختہ بکھر گئی جلوؤں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تیری انگڑائی بن گیا

دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موجِ زندگی
میرا خیال وقت کی شہنائی  نظر آتے ہیں




غزل

بات پھولوں کی  سُنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کر تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں  چلا کرتے تھے

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چو ٹ کھا کر جو دُعا کرتے تھے

بکھری بکھری زُلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے  ساغرؔ
شکوہ ِ بادِ  صبا کرتے تھے

ساغرؔ صدیقی 


غزل

چُھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زُبان بیٹھے ہیں

یہ اور بات کہ منزل پہ ہم نہ پہنچ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان   بیٹھے ہیں

فغاں ہے،درد ہے، سوزوفراق وداغ الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں

اب اور گردشِ تقدیر کیا  ستائے گی
لُٹا کہ عشق میں نام ونشان بیٹھے ہیں

وہ ایک لفظ محبت ہی دِل کا دُشمن ہے
جسے شعریعتِ احساس مان بیٹھے ہیں

ہے میکدے کی  بہاروں سے دستی  ساغرؔ
درائے حدِ یقین و گمان بیٹھے ہیں


No comments:

Post a Comment

Muhabat say kinara (Abandoned by love)

غزل تو سمجھتا ہے تیرا ہجر گوارا کر کے بیٹھ جائیں گے محبت سے کنارہ کر کے خودکشی کرنے نہیں دی تیری آنکھوں نے مجھے لوٹ آیا ہوں میں دریا...