نظم
ابھی پہلی محبت
کے
بہت سے قرض باقی
ہیں
ابھی پہلی مسافت
کی
تھکن سے چور ہیں
پاؤں
ابھی پہلی
رفاقت کا
ہر ایک گھاؤ
سلامت ہے
ابھی مقتول خوابو ں کو
بھی دفنایا نہیں
ہم نے
ابھی آنکھیں ہیں
عدت میں
ابھی یہ سوگ کے
دن ہیں
ابھی اِس غم کی
کیفیت سے
باہر کس طرح
آئیں
ابھی اِس غم کو
بھرنے دو
ابھی کچھ دن
گذرنے دو
یہ غم کے نیلگوں
دریا
اُتر جائے تو
سوچیں گے
ابھی یہ زخم
تازہ ہیں
یہ بھر جائیں تو
سوچیں گے
دوبارہ کب
اُجڑنا ہے۔۔؟؟؟
No comments:
Post a Comment