غزل
جب بھی تم
چاہومجھے زخم نیا دیتے ہو
بعد میں پھر
مجھے، سہنے کی دُعا دیتے رہو
ٹھیک ہے سوچ
سمجھ کر مجھے رُخصت کرنا
یہ نہ ہو بعد
میں رُو رُو کے صدا دیتے رہو
ٹھیک ہے مان لیا
ہے کہ خطا تھی میری
جیسے تم چاہو،
حاضر ہوں، سزا دیتے رہو
چھوڑ جاؤگے تو
رُو دھو کے سنبھل جاؤں گا
پاس رہ کے مجھے
غم حد سے سوا دیتے رہو
رُوٹھ کر جو
تمہیں خود ہی منا لیتا ہے
زینؔ تم اُس کو
دُعا سب سے جُدا دیتے رہو
No comments:
Post a Comment