Tuesday, 20 July 2021

Khawab ki tarah ( What a dream )


 غزل

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے


گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہو تی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے


ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے

ایسی ندی میں  اُتر جانے کو جی چاہتا ہے


کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑے

ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے


وہی پیما ں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت

اُسی پیماں سے مُکر جانے  کو جی چاہتا ہے


افتخار عارفؔ



 

No comments:

Post a Comment

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...