عشق ہے
دل کو لگا کہ
لُٹ جانا عشق ہے
عشق میں وفا کا
پیمانہ عشق ہے
یار کی گلی میں
مر جانا عشق ہے
پل میں بنا دے جو
دیوانہ عشق ہے
عشق بس عشق ہے
کوئی بھی نہیں شرطِ وفا
ایک
دیوانگی رگ رگ میں جنوں جلتا ہوا
خاک ہو جائے
کوئی ملے یا نہ ملے
فیصلہ آپ ہی
کرتا ہے کہے عشق خُدا
سمجھو نہیں کے افسانہ عشق ہے
جان تو یہی تو نذرانہ عشق ہے
زندگی کیا تھی
کے جینے کی طرح جی نہ سکے
غم کے جھونکے
تھے جو سانسوں کی جگہ چلتے ہے
ساتھ رہ کے بھی
جلاتی ہے جدائی ایسے
جیسے دیوانہ
کوئی عشق کی آتش میں جلے
بس میں نہ ہو جو
کر جانا عشق ہے
جا کے اُدھر سے
لوٹ آنا عشق ہے
No comments:
Post a Comment