غزل
وفا
اِس کو نہیں کہتے، وفا کچھ اور ہوتی ہے
محبت
کرنے والوں کی، ادا کچھ اور ہوتی ہے
تمہیں
دیکھا تمہیں چا ہا، تمہیں سے پیار کر بیٹھے
سنو
پتھر کے دل والو، محبت ایسی ہوتی ہے
اگر
چہ غم کا مارا ہوں، مگر تم کو نہیں بھولوں گا
کہ
دیوانوں کے ہونٹوں پہ، دُعا کچھ اور ہوتی ہے
تڑپ
اُٹھے گی یہ دُنیا، اگر روئے گا دِل میرا
کہ
دل سے جو نکلتی ہےوہ، صدا کچھ اور ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment