غزل
خوشبو جیسے لوگ
ملے افسانے میں
ایک پُرانا خط
کھولا انجانے میں
جانے کس کا ذکر
تھا اُس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے
جو دہرانے میں
شام کے سائے
بالشوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی
دہر لگا دی آ نے میں
رات گذرتے شاید
تھوڑا وقت لگے
ذرا سی دھوپ
اُنڈیل میرے پیمانے میں
دِل پہ دستک
دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
گلزارؔ دہلوی
No comments:
Post a Comment