غزل
شامِ غم تجھ سے
جو ڈر جاتے ہیں
شب گذر جائے تو
گھر جاتے ہیں
یوں نمایاں ہیں
تیرے کوچے میں
ہم جھکائے ہوئے سر جاتے ہیں
اب انا کا بھی
ہمیں پاس نہیں
وہ بُلاتے نہیں
پَر جاتے ہیں
یاد کرتے نہیں
جس دِن تجھے ہم
اپنی نظروں سے
اُتر جاتے ہیں
وقتِ رخصت انہیں
رُخصت کرنے
ہم بھی تا حدِ
نظر جاتے ہیں
زندگی تیرے
تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں
کے مر جاتے ہیں
وقت سے پوچھ رہا
ہے کوئی
زخم کیا واقعی
بھر جاتے ہیں
مجھ کو تنقید
بھلی لگتی ہے
آپ تو حد سے گذر
جاتے ہیں
طاہر فراز
No comments:
Post a Comment