غزل
اچھی صورت پہ ٹوٹ
کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں
ہائے زمانہ دل کا
تم بھی منہ چوم
لو بے ساختہ پیار آ جائے
میں سُناؤں جو
کبھی دِل سے فسانہ دل کا
ان حسینوں کا
لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو
آتا ہے ستانا دل کا
میری آغوش سے
کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
اُن کا جانا تھا
الٰہی کہ یہ جانا دل کا
چھوڑ کر اُس کو
تیری بزم سے کیوں کر جاؤں
اِک جنازے کا
اُٹھانا ہے اُٹھانا دل کا
بے دلی سے جو
کہا حال تو کہنے لگے
کر لیا تونے
کہیں اور ٹھکانا دل کا
بعد مدّت کے یہ
اے داغؔ سمجھ میں آیا
وہی دانا ہے کہا
جس نے نہ مانا دک کا
داغؔ دہلوی
No comments:
Post a Comment