عید
آئی مگردِل میں خُوشی نہیں آئی
بعدتیرے ہونٹوں پہ ہنسی نہیں آئی
کیسے
کہہ دوں وقت بڑا قیمتی ہے عاؔدل
جب
تک تیری دِید کی گھڑی نہیں آئی
عید
آئی مگردِل میں خُوشی نہیں آئی
بعدتیرے ہونٹوں پہ ہنسی نہیں آئی
کیسے
کہہ دوں وقت بڑا قیمتی ہے عاؔدل
جب
تک تیری دِید کی گھڑی نہیں آئی
غزل
گلی کو تیری ہم دار لاماں
سمجھتے ہیں
یہ وہ زمیں ہے جسے آسماں سمجھتے
ہیں
انہیں حرم سے غرض نہ دیر سے
کچھ کام
جو اپنا قبلہ تیرا آستاں سمجھتے
ہیں
جُدا جُدا اسیرانِ عشق کی
فریاد
نہ اُن کی میں نہ وہ میری
زُباں سمجھتے ہیں
ہمارے ساقی کو کہتے ہیں شیخ
اہلِ حرم
جو بادا نوش ہیں پیرِ مُغاں
سمجھتے ہیں
دیئے تو ترکِ محبت کے
مشوارے سب نے
مگر یہ حضرتِ بیدم کہاں
سمجھتے ہیں
غزل
آپ ٹہرے ہیں تو ٹہرا ہے
نظامِ عالم
آپ گذرے ہیں تو اِک موجِ
رواں گذری ہے
گر چہ سامان غمِ ہجرسےجاں
گذری ہے
مگر جو دِل پہ گذرنی تھی
کہاں گذری ہے
ہوش میں آئے تو بتلائے تیرا
دیوانہ
دِن کہاں گذرا اور رات کہاں
گذری ہے
حشر کے بعد بھی دیوانے تیرے
پوچھتے ہیں
وہ قیامت جو گذرنی تھی
کہاں گذری ہے
مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے