غزل
دل کے معاملات سے انجان تو
نہ تھا
اِس گھر کا فرد تھا کوئی
مہمان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ
نہ پوچھیے
یارو سفر حیات کا آسان تو
نہ تھا
تھیں جن کے دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں
ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے
نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا ہمیں نادان
تو نہ تھا
رسما َ ہی آ کہ پوچھتا
فاروقؔ حالِ دل
کچھ ا ِس میں اُس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا
I was not aware of the matters of the heart
He was the family member not guest
How the journey of life I spend is don’t ask?
Friends the journey was not an easy life
No comments:
Post a Comment