غزل
کشتی چلا رہا ہے
مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب
جائیں کہیں نا خُدا کے ساتھ
دِل کی طلب پڑی
ہےتو آیا ہے یاد اب
کے ساتھ
جب سے چلی ہے
آدم و یزداں کی داستاں
ہر با وفا کا
ربط ہے اِک بے وفا کے ساتھ
پیرِ مُغاں سے
ہم کو کوئی بیر تو نہیں
تھوڑا سا
اِختلاف ہے مردِ خدا کے ساتھ
شیخ اور بہشت
کتنے تعجب کی بات ہے
یارب یہ ظلم
خُلد کی آب و ہوا کے ساتھ
پڑھتا نماز میں
بھی ہوں پر اتفاق سے
کے ساتھاُٹھتا ہوں نصف رات کو دِ ل کی صدا
محشر کا خیر کچھ
بھی نتیجہ ہو اے عدمؔ
کچھ گفتگو تو
کُھل کے کریں گے خُدا کے ساتھ
عبدالحمید عدمؔ
No comments:
Post a Comment