Monday, 18 September 2023

Kis Taraf Ko chalti hai (Which way does it go)


غزل

کس طرف  کو  چلتی  ہے اب ہوا نہیں معلوم

ہاتھ  اُٹھا  لئے  سب  نے  اور دُعا  نہیں معلوم

 

موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں

پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم

 

رہبروں  کے  تیور  بھی  رہزنوں  سے لگتے ہیں

کب  کہاں  پہ  لُٹ  جائے  قافلہ  نہیں  معلوم

 

سرو  تو  گئی  رُت  میں  قامتیں  گنوا  بیٹھے

قمریاں  ہوئیں  کیسے  بے  صدا  نہیں  معلوم

 

منظروں  کی  تبدیلی  بس  نظر  میں رہتی ہے

ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم

 

ہم  فراز  شعروں  سے  دل  کے زخم بھرتے ہیں

کیا  کریں  مسیحا  کو   جب   دوا  نہیں معلوم

 

احمد فراز



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے