غزل
تجھے میں دل سے بُھلاؤں کیسے
ہے نقش پختہ مٹاؤں کیسے
رگ رگ میں جو بس گیا ہے
جاں کو جسم سے نکالوں کیسے
تیری یادوں کے ورق سارے
کتابِ زیست سے مٹاؤ ں کیسے
تو جو نہیں گر ساتھ میرے
دِل کی محفل سجاؤں کیسے
تیری دید کو ترس رہی ہیں
میں اپنی نظر کو سمجھاؤں کیسے
تمہیں سےآباد دل ہے میرا
جو رُوٹھو عاؔدل مناؤں کیسے
عاؔدل
No comments:
Post a Comment