غزل
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی
گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد
وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا جو دیتا تھا
دُعا شام کے بعد
آہیں بھرتی ہے شبِ ہجر
یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا
شام کے بعد
شام تک قید رہا کرتے ہیں دل
کے اندر
درد ہو جاتے ہیں سارے رہا
شام کے بعد
لوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں
لیکن جاناں
ہم نے خوش ہو کے تیرا درد
سہا شام کے بعد
شام سے پہلے تلک لاکھ
سُلائے رکھیں
جاگ اُٹھتی ہے محبت کی انا
شام کے بعد
چاند جب رو کے ستاروں سے
گلے ملتا ہے
اک عجب رنگ کی ہوتی ہے فضا
شام کے بعد
ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ
ملوگی کب تک
اُس نے بے چینی سے فورا کہا
شام کے بعد
میں اگر خوش بھی ہوں پھر بھی مرے سینے میں
سوگواری کوئی روتی ہے سدا شام
کے بعد
تم گئے ہو تو سیاہ رنگ کے
کپڑے پہنے
پھرتی رہتی ہے میرے گھر میں
قضا شام کے بعد
لوٹ آتی ہے میری شب کی
عبادت خالی
جانے کس عرش پہ رہتا ہے
خُدا شام کے بعد
No comments:
Post a Comment