Monday, 20 January 2020

Dill say bholaun kaisay ( How to forget the heart )


غزل

ٹوٹ جائےنہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کوسناؤں کیسے

خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے

تیری صورت ہی میری آنکھ کاسرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگا ہوں کو ہٹاؤں کیسے

تو ہی بتلا میری یادوں کو بُھلا نے والے
میں تیری یاد کو اِس دل سے بُھلاؤں کیسے

پھول ہوتا تو تیرے در پہ بھی  سجا رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے

آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیمؔ
اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے

وہ رُلاتا ہے رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ
میری آنکھیں ہے وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے

عدیمؔ ہاشمی



No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے