غزل
غمِ حیات کا
جھگڑا مِٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کے دُنیا
سے جا رہا ہے کوئی
ازل سے کہہ دو
کہ رُک جائے دو گھڑی
سُنا ہے آنے کا
وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ اِ س ناز سے
بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے روٹھے ہوئے
کو منا رہا ہے کوئی
پلٹ کر نہ آجائے
سانس نبضوں میں
اتنے حسِین
ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
ائے خُدا دو پل
کو مہلت اور دےدے
میری قبر سے
مایوس جا رہا ہے کوئی
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment