Thursday, 16 January 2020

Gham e Hayaat ( Sorrow of life )


غزل

غمِ حیات کا جھگڑا مِٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کے دُنیا سے جا رہا ہے کوئی

ازل سے کہہ دو کہ رُک جائے دو گھڑی
سُنا ہے آنے کا وعدہ  نبھا رہا ہے کوئی

وہ اِ س ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نہ آجائے سانس نبضوں میں
اتنے حسِین ہاتھوں سے میت  سجا رہا ہے کوئی

ائے خُدا دو پل کو مہلت اور دےدے
میری قبر سے مایوس جا رہا ہے کوئی

احمد فرازؔ


No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے