غزل
آنکھ سے دُور نہ
ہو، دِل سے اُتر جائے گا
وقت کا کیا ہے
گزرتا ہے، گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ
ہو خلوت ِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو
بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اُچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اُتر جائے گا
زندگی تری عطا
ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری
دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب بھی
نہیں روئے گا تو مر جائے گا
No comments:
Post a Comment