غزل
چلو اب ایسا
کرتے ہیں، ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق
ہم، سہارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کرنے والوں
کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے
ہیں، خسارے بانٹ لیتے ہیں
اگر ملنا نہیں
ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر
ابھی دریائے
اُلفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں
میری جھولی میں
جتنے بھی وفا کے پھول ہیں اُن کو
اکٹھے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کے علاوہ پاس
اپنے کچھ نہیں ہے فیضؔ
اِسی دولت کو ہم
قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں
No comments:
Post a Comment