Monday, 31 August 2020

Judai main Roe diye ( In Separation cried )

غزل

جلنے لگی لہو میں جدائی تو رُو دیئے

تنہائیوں نے خاک اُڑائی تو  رُو دیئے


چہرے نے تیرا روگ چھپا یا تو ہنس دیئے

آنکھوں نے تیری یاد منائی تو  رُو دیئے


خُوشبو   نے کوئی یاد دلایا  تڑپ اُٹھے

پھُولوں نے داستان سنائی تو  رُو دیئے


گزرا ہے ہم پہ خود یہی عالم اِسی لئے

   ہنسنے لگی کسی پہ خدائی تو  رُو دیئے


راس آ چکی تھی تیرگئی شب کچھ اسقدر

گر شمع بھی کسی نے جلائی تو  رُو دیئے


 

Friday, 28 August 2020

Bosa na day ( Don't kiss me )

غزل

بوسہ نہ دے گلے نہ لگا ہاتھ مت  ملا

اے یار خوش جمال مگر سا منے تو آ


دو چار گز کے فاصلے سے مسکرا کے دیکھ

ود چار گز کے فاصلے تک آکے لوٹ جا


یا گھر میں بیٹھ اور مجھے تصویر بھیج دے

فصلِ وبا میں وصل کا انداز ہے جُدا


گزریں وبا کے دِن تو بغلگیر ہوں گے

ارمان ضبط کر اے میرے یار تھم ذرا







 

Wednesday, 26 August 2020

Yaad Aoun tu ( If I Remember )



غزل


یاد آوں تو  بس اتنی سی عنایت کرنا

اپنے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت کرنا


تم تو چاہت کا شاہکار ہو ا کرتے تھے

کس سے سیکھا ہے اُلفت میں ملاوٹ کرنا


ہم سزاوں کے حقدار بنے ہیں کب سے

تم ہی کہہ دو کہ جُرم ہے کیا محبت کرنا


تیری فُرقت میں یہ آنکھیں ابھی تک نم ہیں

کبھی آنا میری آنکھوں کی زیارت کرنا




 

Thursday, 20 August 2020

Zindgi say bari saza ( Punishment Of life )

غزل

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جُرم ہے پتہ ہی نہیں


اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں


زندگی موت تیری منزل ہے

دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں


جس کے کارن فساد ہوتے ہیں

اُس کا کوئی اتا پتہ ہی نہیں


زندگی اب بتا کہاں جائیں

زہر بازار میں ملا ہی نہیں


سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں


دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون

اب کسی جُرم کی سزا ہی نہیں


چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں


کرشن بہاری


 

Tuesday, 18 August 2020

Wo hamara no tha ( He was not mine )

غزل

جو ملا اُس سے گزارا نہ ہوا

جو ہمارا تھا ، وہ  ہمارا نہ ہوا


ہم کسی اور سے منسوب ہوئے

کیا یہ نقصان تمہارا نہ ہوا


خَرچ ہوتا رہا محبت میں

پھر بھی اِس دِل کو  خسارہ نہ ہوا


دونوں ایک دوسرے پہ مرتے  رہے

کوئی اللہ کو پیارا نہ ہوا


طاہر فراز



 

Monday, 10 August 2020

Kaash aajai ( My wish he come )


کاش آجائے  ، وہ مجھے جان سے گذرتے دیکھے

اُس کی خواہش تھی، کبھی مجھ کو بکھرتے دیکھے


وہ سلیقے سے ہوئے ہم سے گریزاں ورنہ !

لوگ تو صاف محبت میں مُکرتے دیکھے


وقت ہوتا ہے ہر ایک زخم کا مرہم محسنؔ

پھر بھی کچھ زخم تھے ایسے جو نہ بھرتے دیکھے



 

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے