غزل
زندگی سے بڑی
سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے
پتہ ہی نہیں
اتنے حصوں میں
بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں
کچھ بچا ہی نہیں
زندگی موت تیری
منزل ہے
دوسرا کوئی
راستہ ہی نہیں
جس کے کارن فساد
ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا
پتہ ہی نہیں
زندگی اب بتا
کہاں جائیں
زہر بازار میں
ملا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے
تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی
انتہا ہی نہیں
دھن کے ہاتھوں
بکے ہیں سب قانون
اب کسی جُرم کی
سزا ہی نہیں
چاہے سونے کے
فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ
بولتا ہی نہیں
کرشن بہاری
No comments:
Post a Comment