غزل
ہماری نیندیں بھی اُڑ چکی
ہیں ،
صنم بھی کروٹ
بدل رہے ہیں
اُدھر بھی جاگا
ہے پیار دل میں،
اِدھر بھی ارمان
مچل رہے ہیں
ملا ہے جس دن سے
پیار اُن کا
ہر ایک شئے ہے
نثار مجھ پر
گلاب قدموں میں
بچھ رہے ہیں
چراغ راہوں میں
جل رہے
ہیں
تمھاری آنکھوں
میں پیار دیکھوں
تم آؤ تو میں
بہار دیکھوں
تمہارے ہمراہ
گھر سے نکلوں
سُنا ہے موسم
بدل رہے ہیں
امیر بن کر وہ
آج آیا
تو ساتھ اُ س کے
نہ چل سکے ہم
وہ اپنا لہجہ
بدل رہا ہے
ہم اپنا رستہ
بدل رہے ہیں
ہماری سانسیں
ٹہر گئیں تو
تمہارے دِل کو
ملال کیوں ہے
یہی رہے ہیں یہی
رہیں گے
بس آج ہم گھر
بدل رہے ہیں
شراب ایسی بھی
ہے جہاں میں
جو ہوش میں آدمی
کو لائے
وہ دیکھوجامِ
رسولؐ پی کر
بہکنے والے
سنبھل رہے ہیں
شبینہ ادیب
No comments:
Post a Comment