نظم
سوچتا ہوں کہ وہ
کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہو
گئے، دیکھتے دیکھتے
میں نے پتھر سے
جن کو بنایا صنم
وہ خُدا ہو گئے
، دیکھتے دیکھتے
حشر ہے وحشتِ
دِل کی آوارگی
ہم سے پوچھو
محبت کی دیوانگی
جو پتہ پوچھتے
تھے کسی کا کبھی
لا پتہ ہو گئے، دیکھتے
دیکھتے
ہم سے یہ پوچھ
کے کوئی وعدہ کرو
ایک وعدہ پہ
عمریں گزر جائیں گی
یہ ہے دُنیا
یہاں کتنے اہلِ وفا
بے وفا ہو گئے، دیکھتے
دیکھتے
غیر کی بات
تسلیم کیا کیجیے
اب تو خود پر
بھی ہم کو بھروسہ نہیں
اپنا سایہ
سمجھتے تھےجن کو کبھی
وہ جُدا ہو گئے،
دیکھتے دیکھتے
No comments:
Post a Comment