نہ تم آئے شبِ وعدہ پریشاں
رات بھر رکھا
دِیا اُمید کا میں نے جلائے
تا سحر رکھا
کوئی اُس طائرِ مجبور کی بے
چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیاد نے بے بال و پَر رکھا
عید آئی مگردِل میں خُوشی نہیں آئی بعدتیرے ہونٹوں پہ ہنسی نہیں آئی کیسے کہہ دوں وقت بڑا قیمتی ہے عاؔدل جب تک تیری دِید کی گھڑی نہیں ...
No comments:
Post a Comment