Saturday, 30 June 2018

Chah Na Thi ( No Love )


غزل

مجھ کو جب تک کسی کی چاہ نہ تھی
زندگی صرف اشک و آہ نہ تھی

تنگ تھی اُس پہ وسعتِ دُنیا
تیری محفل میں جس کو راہ نہ تھی

بھول بیٹھی مجھے وہ آنکھ تو کیا
یوں بھی  کچھ میری  خیر خواہ نہ تھی

تجھ کو اپنا بنا سکے نہ کبھی
یوں تو کس کس سےرسم و راہ نہ تھی

وصل اُن کا نصیب ہو نہ سکا
کوئی کوشش بھی رُوبراہ نہ تھی

اُن کی صحبت چُھٹی تو دنیا میں
مجھ کو شفقت کہیں پناہ نہ تھی

شفقت کاظمی



Friday, 29 June 2018

Zindgi ki baat ( Life Talk )




غزل

اُن کی خوشی کی بات نہ اپنی خوشی کی بات
ہم کر رہے ہیں آج  ہر اک زندگی کی بات

شہروں کو جن کےظلم نے مقتل بنا دیئے
وہ لوگ کرنے آئے ہیں اب زندگی کی بات

ساقی کے فیضِ عامکے چرچے ہیں ہر طرف
میں کیا سنا سکوں گا میری تشنگی کی بات

شاید تمھیں بھی اُن کے غموں کا پتہ نہیں
جو لوگ کر رہے ہیں تمھاری خوشی کی بات

ذرےاب آفتاب کو نیچا دکھائیں گے
اہلِ خردبھی کرتے ہیں دیوانگی کی بات

صرف اُن کی زلف و رُخ کی فسانے ہیں رشید
ظلمت کی بات ہے نہ ہے اب روشنی کی بات

رشید اندوری



Sunday, 24 June 2018

Paimanay say Paimana ( Grail Of Love )



ہوا عشقِ بُتاں میں اِس قدر یاربّ میں دیوانہ
کہ بُت خانے کو کعبہ کہہ دیا، کعبے کو بُت خانہ

نگا ہوں کو نگاہوں سے ملا نا رسمِ محبت ہے
کہ پیتے رند ہیں ٹکرا کے پیمانے سے پیمانہ

فیض بخشا پوری



Faraib e Jawani ( Teen age Youth )




فریبِ محبت فریبِ جوانی
بڑی مختصر ہے ہماری کہانی

یہ آغازِ رنگیں یہ کمسن جوانی
ہوئی جا رہی ہے نظر پانی پانی

ادریس شمیم



Haseen Raat ( Beautifull Night )







ہائےکتنی حَسین تھی وہ رات
جو تیری بار گاہ میں گذری

دن امیرِ ثواب میں بیتا
شب خلوصِ گناہ میں گذری

ادریس شمیم 




Intazaar e Dost ( Awaiting Friend )


غزل

کیوں نہ کرتے ہم انتظار اے دوست
تجھ پہ ہوتا جو اعتبار اے دوست

غیر سے مل کے بھول بھال گئے
تجھ کو وہ  قول و ہ قرار اے دوست

جو تیری صحبتوں میں بیت گیا
آہ وہ دورِ خوشگوار اے دوست

تجھ سے بچھڑے تھے کب مگر اب تک
دل کی دُنیا ہے سوگوار اے دوست

نا مرادِ وصال کیوں رہتے
تجھ پہ ہوتا جو اختیار اے دوست

تُو نہیں جب تو کاظمی کے لئے
زندگانی ہے وجہ عار اے دوست

 شفقت کاظمی




Khayal e Yaar ( Lover ThinK )



غزل

گم ہوئے یوں خیالِ یار میں ہم
نہ رہے اپنے اختیار میں ہم

وہ نہ آئیں تو اُن کی بات ہے اور
ورنہ اب تک ہیں انتظار میں ہم

کوئی سُنتا نہیں کسی کی یہاں
نا حق آئے تیرے دیار میں ہم

اُن کو عہدِ وصال بھول گیا
ہو گئے ختم انتظار میں ہم

یاد اُن کی اُتر گئی  دِل سے
ِگھر گئےفکرِ روزگار میں ہم

اُن کی نسبت ہو گئے مشہور
ورنہ شفقت تھے کس شمار میں ہم

 شفقت کاظمی



Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...