غزل
اُن کی خوشی کی بات نہ اپنی خوشی کی بات
ہم کر رہے ہیں آج ہر اک زندگی کی بات
شہروں کو جن کےظلم نے مقتل بنا دیئے
وہ لوگ کرنے آئے ہیں اب زندگی کی بات
ساقی کے فیضِ عامکے چرچے ہیں ہر طرف
میں کیا سنا سکوں گا میری تشنگی کی بات
شاید تمھیں بھی اُن کے غموں کا پتہ نہیں
جو لوگ کر رہے ہیں تمھاری خوشی کی بات
ذرےاب آفتاب کو نیچا دکھائیں گے
اہلِ خردبھی کرتے ہیں دیوانگی کی بات
صرف اُن کی زلف و رُخ کی فسانے ہیں رشید
ظلمت کی بات ہے نہ ہے اب روشنی کی بات
رشید اندوری
No comments:
Post a Comment