غزل
آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافرنے سمندر نہیں دیکھا
یہ پُھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے میرا کانٹوں بھرا بِستر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہُوںمیری
منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتھر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
جس ہاتھ نے اب تک کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا
میں موم ہُوں اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment