غزل
ہر بات میں مہکے ہوئے جذبات کی خُوشبو
یاد آئی بہت پہلی مُلا قات کی خُوشبو
چُھپ چُھپ کے نئی صبح کا منہ چوم رہی ہے
اِن ریشمی زُلفوں میں بسی رات کی خُوشبو
موسم بھی حسینوں کی اَدا سیکھ گئے ہیں
بادل میں چُھپائے ہوئے برسات کی خُوشبو
ہو نٹوں پہ ابھی پُھول کی پتّی کی مہک ہے
سانسوں میں رَچی ہے تری سوغات کی خُوشبو
گھر کتنے ہی چھوٹے ہوں، گھنے پیڑ ملیں گے
شہروں سے الگ ہوتی ہے قصبات کی خُوشبو
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment