غزل
حُسن مَعصوم کو مَعصوم بَنا رہنے دو
چہرہ آنچل میں چُھپاہے تو چُھپا رہنے دو
ہم نے ہر حال میں اعلانِ وفا کرنا ہے
خُود غرض لوگ خفا ہیں تو خفا رہنے دو
بے گناہی کا ثبوت اور کہاں تک دیں گے
اُن کو منظُور جفا ہے تو جفا رہنے دو
زندگی پیار کی آواز سے مانوس نہیں
میں بہت دُور گیا اَب صدا رہنے دو
کون اِس دَور میں حق بات کو سُنتا ہے عتیق
آج محفل میں ہے جُھوٹوں کی ہوا رہنے دو
No comments:
Post a Comment